تحریر: سید سبطین شاہ
ناروے کے انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں۔ انتخابی مہم تیزتر ہورہی ہے۔ ناروے میں موجودہ حکومت جو دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے، اس کوشش میں ہے کہ دوسری بار بھی اس کااقتداربرقرار رہے۔ستمبر2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں دائیں بازو کی جماعتوں ہورے پارٹی اور انتہائی دائیں بازو کی پراگرس (ترقی پسند) نے ملکر حکومت بنائی ۔ ہورے پارٹی کی سربراہ ارنا سولبرگ وزیراعظم بنیں اور پراگرس پارٹی کی رہنماء سیو جانسن کو وزیر خزانہ اور اس پارٹی ایک اور رہنماء سلوی لیسھاگ کو وزیرامور امیگریشن بنایاگیا۔ناروے میں حکومت کی مدت چار سال ہے اور چار سال بعد ستمبر کے ماہ کے دوران انتخابات ہوتے ہیں اور حکومت کو کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملتے ہیں۔ حالیہ سالوں کے دوران ناروے سمیت پورے یورپ میں ایک رحجان پایاگیاکہ دائیں بازو کی کمزور جماعتوں نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پرانے اور نئے تارکین وطن کو اپنی منفی تنقید کا نشانہ بناکر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ جماعتیں کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔یہ جماعتیں دیکھتے دیکھتے طاقت پکڑتی گئیں اور لبرل جماعتیں کمزور ہوتی گئیں۔اسی وجہ سے پورے یورپ میں اکادمیہ کے اندر بھی یہ موضوع یعنی ’’لبرل سیاست کا خاتمہ‘‘ آج بھی زیربحث ہے۔لوگوں نے نہ دیکھا اور نہ سنا ، لبرل ازم اور آئیڈیالزم کو لات مارنا شروع کردی۔دائیں بازوکے کڑنظریاتی رکھنے والی نئی پارٹیاں اور نئے چہرے نمودار ہوئے جس سے یورپ کے مہذب معاشرے کے اندرعدم تحمل اورعدم برداشت اور نسل پرستی اور قوم پرستی کا عنصر ابھرکر سامنے شروع ہوگیا۔حالانکہ یورپ کے بہت سے ملکوں میں لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق اور سوشل سیکورٹی جیسے گھر، میڈیکل اور بے روزگاری الاؤنس جیسی سہولیات ایک مخلو ط نظام کی وجہ سے ملیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب پہلے سے ہی طبقاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کارل مارکس جیسے لوگوں کے نظریات پھیل چکے تھے ، یورپی رہنماؤوں کو ان نظریات کو روکنے اورخاص طورپرسوویت یونین کے اثرورسوخ کی روک تھام کے لیے ان ملکوں میں سوشل ویلفیئرسیسٹم متعارف کروانا پڑا ۔کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر ان ملکوں میں سوویت یونین کے تحت سوشلزم کے اثرات بڑھنے تھے۔ اس مخلوط ویلفیئرنظام کو متعارف کروانے میں امریکہ کی مرضی بھی شامل تھی ۔ نہ صرف یہ بلکہ امریکہ نے سوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد مارشل پلان کے تحت اربوں ڈالرز یورپی ملکوں کی تعمیرنو اور ترقی کے لیے دیئے۔یورپ کی تعمیر نوکے دوران بہت سے تارکین وطن ایشیاء سے بھی محنت و مشقت کرنے اس خطے میں داخل ہوئے۔ یورپ جو جنگ کے بعد بحالی کے عمل سے گزررہاتھا، کو ان محنت کشوں کی اشد ضرورت تھی۔اب کئی سالوں کی مشقت کے بعد یہ لوگ یورپ کے معاشرے میں رچ بس گئے ہیں ۔ وہ بالکل ہی یورپین ہیں۔ یورپی زبانیں بولتے ہیں اور یورپی کلچرل اور نظام سے واقف ہیں لیکن ان کی رنگت گوروں کی طرح بالکل سفید نہیں۔
اب نوے کی دہائی جب سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سوشلزم کمزورپڑنے لگا اور سرد جنگ کے بعد یورپ کے بہت سے ملکوں کو سوویت اثرات سے آزادی ملی تو نئے رحجانات سامنے آئے۔ یورپ میں دائیں بازو کی سیاست نے زورپکڑنا شروع کردیا۔بائیں بازو کی جماعتیں بھی کمزورہوناشروع ہوگئیں۔ خاص طورپرسرد جنگ کے خاتمے سے ابتک دائیں بازو کی جماعتوں نے بہت زور پکڑاہے۔ ان جماعتوں نے معاشرے کے اصل مسائل سے ہٹ کر جن میں صنعتی زوال، بے روزگاری، خاندانوں پر معاشی بوجھ، معاشرتی مسائل اورماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہیں، تارکین وطن کو نشانہ بنایاہے جوکئی عشروں سے یورپ میں مقیم ہیں۔البتہ کچھ لوگوں ایسے بھی ہیں ، جو حالیہ عشروں کے دوران اپنے ممالک جیسے افغانستان ، عراق ، شام و صومالیہ میں جنگ کی وجہ سے یورپ آئے ہیں لیکن انہیں بھی یورپی ممالک نے اپنی مرضی سے اور اپنے قوانین کے تحت پناہ دی ہے۔تارکین وطن کی ایک بڑی تعدادناروے میں بھی مقیم ہے۔ ان تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد جن کے پاس نارویجن شہریت ہے، انہیں تارکین وطن نہیں کہاجاسکتا۔اب وہ ناروے کے شہری ہیں۔اگرچہ یہ لوگ اب یورپین باشندے ہیں لیکن دیگر یورپی ممالک کی طرح ناروے میں بھی کئی سالوں سے انتہائی دائیں بازو کی کڑنظریات رکھنے والی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کے دوران انہیں نشانے پر رکھتی ہیں۔ان جماعتوں کوبھی کوئی دوسرا ایشو نہیں ملتاجس کو استعمال کرکے ووٹ لیں۔ ناروے کی ترقی پسند پارٹی جس میں ایک نہ ایک فرد ایسا ضرور ہوتاہے جو تارکین وطن کے حوالے سے ایشو تلاش کرتاہے اور انہیں عوام میں اٹھانا اپنا فرض سمجھتاہے۔ پہلے پہل اس پارٹی کے بانی مسٹر کارلی ہاگن اس کام میں مشہورتھے ، پھر سیو وجانسن آئیں اور اب یہ فریضہ سلوی لیست ھاگ کے سرہے جو اپنے متازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں میں رہتی ہیں۔ کچھ دن قبل انھوں نے بیان دیاکہ تارکین وطن کے بارے میں پڑوسی اور دیگر لوگ بتائیں کہ وہ اپنے آبائی وطن گئے ہیں یا نہیں۔ اگرگئے تو پولیس ان کے خلاف کاروائی کرے۔ اب منھاج القرآن کی ساسبرگ شہر میں ایک کانفرنس کے دوران طاہرالقادری اور دیگر مقررین کو مخاطب کرکے کہہ دیا کہ بعض لوگ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیئے ہوتے ہیں۔ ان نارو یجن خاتون کے پاس امیگریشن کے امورکی یک وزارت بھی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ یہ لوگ مغرب میں کچھ اور بیان دیتے ہیں اور اپنے ہاں جاکر کچھ اور کہتے ہیں۔اس خاتون وزیرکو مہمان کے طورپر اس کانفرنس میں مدعو کیاگیاتھا۔انھوں نے اپنے ہی میزبانوں کو بھیڑکی کھال میں بھیڑیاکہہ دیا۔ اب اگر کوئی مہمان اپنے میزبانوں کو یہ کہہ دے کہ آپ بھیڑ کی کھال اوڑھے بھیڑیے ہیں یا شرافت کے لبادے میں اوڑھے بدمعاش ہیں، کتنا معیوب لگے گابلکہ اس طرح کے الفاظ کو بعض معاشروں میں گالی سمجھاجاتاہے۔یہ تو علامہ طاہرالقادری اور ان کے حامیوں کی شرافت، روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے کہ انھوں نے اس منفی تنقید بلکہ طنز کو برداشت کیا، اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتاتو بات بگڑ سکتی تھی۔بہرحال یہ بات بھی درست ہے کہ ایشیائی خاص طورپر مسلمان معاشرے مشکلات کا شکارہیں لیکن ان مسائل کو ابھارنے کے لیے ایسی حرکات سے گریزکیاجائے جن سے انتشارپیداہوتاہے۔یورپ کے معاشرے میں تارکین وطن یا بعض مسلمانوں کے حوالے سے مسائل ضرور ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں ہمیشہ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تنقید برائے تنقید کے کبھی مثبت نتائج نہیں نکلتے بلکہ معاشرہ ہمیشہ انتشاراور تفرقہ پھیلتاہے۔معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے انسان کی اصلاح کے بہت سے مثبت طریقے ہیں۔ اسے ڈرا اور دھمکا کر سمجھانے کے بجائے پیارو محبت سے بھی سمجھایاجاسکتاہے ۔ بعض اوقات معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔جہاں تک منفی تنقید کے ذریعے ووٹ لینے کا سوال ہے تو اب لگتاہے کہ یورپ کے لوگ بھی سمجھ گئے ہیں اوروہ دوسرے طبقات پر تنقید کی وجہ سے ووٹ نہیں دیں گے بلکہ ووٹ لینے کے لیے کارکردگی ضروری ہے۔یہ حقیقت بن گئی ہے کہ اصل مسائل کو نظرانداز کرکے ووٹ نہیں لئے جاسکتے ہیں بلکہ لوگوں کے اہم مسائل کو حل کرناہوگاجس میں بے روزگاری، معاشی ضروریات، انسانی مساوات وغیرہ شامل ہیں۔عوام کے میڈیاٹرائل سے گریز کرکے ایسے مسائل کو اجاگرکیاجائے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔انسانوں سے پیارکریں گے اورانہیں درست سمت کی طرف رہنمائی کریں گے تو خود بخود ان کی اصلاح ہوجائے گی۔